جِنّات کے وُجُود کاانکار کرنا کیسا؟
سُوال:بعض لوگوں کا یہ کہنا کیسا ہے کہ جِنّات کا وُجود ہی نہیں، یہ سب یونہی قصّے کہانیاں ہیں!
جواب:جنّات کے وُجُود کاانکار کُفر ہے ۔ ان کا وُجُود قراٰن وحدیث سے ثابِت ہے ۔ قراٰنِ مجید کی کم و بیش 25سُورَتوں میں جِنّات کا تذکِرہ ہے حتّٰی کہ پارہ 29 کی ایک پوری سورۃ کا نام ہی سورۃُ الجِنّ ہے! صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں :جِنّ کے جُود کااِنکار یا بدی کی قوّت کا نام جِنّ یا شیطان رکھنا کُفر ہے۔ (بہارِ شریعت حصّہ 1 ص 50) اِسی طرح یہ کہنا کہ جِنّ کوئی چیز نہیں بلکہ بدی کی طاقت کا نام ہی ''جِنّ ''ہے یا کہنا کہ شیطان کوئی چیز نہیں بلکہ بدی کی طاقت کا نام ہی ''شیطان ''ہے یہ کفر ہے۔
کیا بھوت اور چُڑَیل کا بھی وُجود ہے؟
سُوال:کیا آسَیب ، بھوت اورچُڑَیل وغیرہ کا بھی وُجُود ہے؟
جواب:جی ہاں۔ فتاوٰی رضویہ جلد21صَفْحَہ218 پرمیرے آقا
اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن کے فرمانِ والا شان کا خُلاصہ ہے:ہاں جِنّ اور ناپاک رُوحیں مرد و عورت ، احادیث سے ثابِت ہیں اور وہ اکثر ناپاک موقَعَوں پر ہوتی ہیں۔ انہیں سے پناہ کے لئے اِ ستِنجاء خانے جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنا وارِد ہوئی: ''اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبَا ئِث۔ یعنی میں گندی اور ناپاک چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔'' (یہ یا اِس طرح کی اور کوئی ماثور دعا پڑھ کر جانے سے استنِجاخانے میں رہنے والے گندے جنّات نقصان نہیں پہنچا سکتے)کیا انسان پر اولیا کی سُواری آ سکتی ہے؟
سُوال:مشہور ہے، بعض جگہ مرد یا عورت پر شہید یا ولیُّ اللہ کی ''سُواری''آتی ہے اِس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب:بعض اوقات تو یہ نِرا ڈھونگ ہوتا ہے جو کہ حُبِّ جاہ اور سستی شہرت کے بھوکے مردوعورت عوام کو اپنی طرف متوجِّہ کرنے اور بھیڑ جمانے کیلئے ایسا کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ شریر جنّات ہوتے ہیں جوکہ کسی انسان پر غلبہ پا کر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَيہِ رَحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:''یہ(یعنی شریر جِنّات)سخت جھوٹے کذّاب ہوتے ہیں ، اپنا نام کبھی شہید بتاتے ہیں اور کبھی کچھ۔ اِس وجہ سے جاہِلانِ بے خِرَد (یعنی بے عَقل جاہِلوں)میں ''شہیدوں کا سر پر آنا''مشہور ہو گیا،ورنہ شُہَدائے کرام (اوراولیائے عظام)ایسی خبیث حرکات سے پاک و صاف ہوتیہیں۔'' ( ماخوذاز فتاوٰی رضویہ ج21 ص 218)
جِنّات کی حاضِری
سُوال:بعض مرد و عورت کو جنّات کی''حاضِری'' آتی ہے۔اُن سے سوال جواب کرنا کیسا ہے؟
جواب:جِنّات سے آئندہ کی بات پوچھنی حرام ہے۔ مَثَلاً پوچھنا، میر ا بچّہ کب تندُرُست ہو گا؟میں مقدَّمہ جیتوں گا یا نہیں؟میری فُلاں جگہ شادی ہو گی یا نہیں؟ میں امتحان میں کامیابی پاؤں گا یا نہیں؟وغیرہ سوالات کرنا حرام اورجہنَّم میں لے جانے والے کام ہیں۔میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَيْہِ رَحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:''حاضِرات کرکے مُوَکَّلَان جِنّ سے پوچھتے ہیں فُلاں مُقَدّمہ میں کیا ہوگا؟ فُلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟یہ حرام ہے۔'' (فتاویٰ افریقہ،ص177۔178)
کیا جِنّ کو آئِندہ کی باتوں کا پتا چل جاتا ہے؟
سُوال:جِنّ کی آئندہ کی بتائی ہوئی غیب کی خبر پر یقین کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب:نہیں کر سکتے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَيْہِ رَحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں:''حاضِرات کرکے مُوَکَّلَان جِنّ سے(آئندہ کی باتیں)پوچھتے ہیں ،فُلاں مقدمہ میں کیا ہوگا؟ فُلاں کام کا انجام کیا ہوگا؟یہ حرام ہے۔''۔۔۔۔۔۔
جِنّ غیب سے نِرے یعنی مکمَّل طور پر)جاہِل ہیں۔ ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عَقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان کی غیب دانی کا اِعتِقاد ہو تو(یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ جِنّ کو علمِ غیب ہے یہ )کُفرہے۔ (فتاویٰ افریقہ،ص178) جِنّات کو ایک سال تک حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان عَلیٰ نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی وفاتِ ظاہِری کا علم نہ ہو سکا۔ چُنانچِہ اللہُ عالِمُ الْغَیب جلَّ جَلَا لُه، کی سچّی کتاب قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنۡ لَّوْ کَانُوۡا یَعْلَمُوۡنَ الْغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الْعَذَابِ الْمُہِیۡنِ ﴿14﴾
ترجَمۂ کنز الايمان :پھر جب سليمان (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)زمين پر آيا، جنوّں کی حقيقت کُھل گئی۔ اگر غيب جانتے ہوتے تو اِس خواری کے عذاب ميں نہ ہوتے ۔ (پ22 سبا14)
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے ثابِت ہوا کہ جِنّات علمِ غیب نہیں جانتے