تقد یر کا لکھا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ خَمْسِیْنَ سَنَۃً حَتَّی لاَ یَبْقَی بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ اِلاَّ
شِبْرٌ وفی روایۃ اِلاَّقَدْرُ فُوَاقِ نَاقَۃٍ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ اْلکِتَابُ فَیُخْتَمُ لَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ
''بے شک ایک شخص پچاس سال تک جنتیوں والے اعمال کرتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے
( اور ایک روایت میں ہے) مگر اونٹنی کی دو دھاروں کے درمیان والی مقدار باقی رہ جاتی ہے کہ اس پر تقدیر غالب آتی ہے تو اس کا خاتمہ جہنمیوں والے کام پر ہوتا ہے۔''(صحیح مسلم جل ۲ ص ۳۳۴ کتاب القدر / مسند امام احمد بن جنبل جلد اول ص ۳۸۲ مرویات عبد اﷲ) اور ظاہر سی بات ہے کہ اونٹنی کے دودھ دوہنے کے دوران دو دھاروں کے درمیان کا
وقفہ اعضاء کے عمل کا احتمال نہیں رکھتا یقینا وہ موت کے وقت دل میں پیدا ہونے والے کھٹکے کی مقدار ہے پس وہ برے خاتمہ کا تقاضا کرتی ہے تو وہ اس سے کس طرح بے خوف ہوگا کہ کہیں موت کے وقت قلب کی ایمانی کیفیت نہ بدل جائے ۔میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مومن کی انتہائی غرض و غایت یہی ہے کہ اس کا خوف اور امیداعتدال پر ہوں عام لوگوں میں امید کا غلبہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان کو معرفت کم حاصل ہوتی ہے اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں کو ان لوگوں کے وصف میں جمع کیا جن کی تعریف کی گئی۔
ارشاد خداوندی (عزوجل) ہے :
یَدْعُوۡنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ۫
ترجمہ کنز الایمان : ''اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امید کرتے ''
(پارہ۲۱' سوره السجدہ' آیت ۱۶)
اوراسی طرح ارشادباری (عزوجل) ہے۔
وَ یَدْعُوۡنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًا ؕ
ترجمہ کنز الایمان : ''اور ہمیں پکارتے تھے امید اور خوف سے''(پارہ۱۷' سورۃ انبیاء' آیت ۹۰)
اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسا شخص اس زمانے میں کہاں ؟ اس زمانے میں توجتنے لوگ موجود
ہیں ان کے لئے زیادہ بہتر غلبہ خوف ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ (خوف) ناامیدی 'ترک عمل اور مغفرت کی امیدختم کرنے کا باعث نہ بنے کیونکہ اس صورت میں یہ خوف ' عمل سے سستی کا سبب بن جائے گا۔ اور گناہوں میں انہماک کی دعوت دے گا یہ تو ناامیدی ہے خوف نہیں ہے خوف تو وہ ہے جو عمل کی ترغیب دے اور تمام خواہشات کو گدلا کردے نیز دل سے دنیا کی طرف محبت کم کردے اور اس دھوکے والے گھر یعنی (دنیا) سے دور رہنے کی دعوت دے ایسا خوف پسندیدہ ہے ۔
چنانچہ حضرت سیدنا یحییٰ بن معاذ رحمہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالیٰ کی عبادت محض خوف سے کرتا ہے وہ فکرات کے سمندروں میں غرق ہوجاتا ہے اور جو شخص اس کی عبادت محض امید سے کرتا ہے وہ دھوکے کے جنگل میں بھٹکتارہے گا اور جو آدمی اﷲ تعالیٰ کی عبادت خوف اور امید دونوں کے ساتھ کرتا ہے وہ ذکر کے راستے میں سیدھا چلے گا۔
اسی طرح حضرت سیدنا مکحول دمشقی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں جو شخص اﷲ تعالیٰ کی عبادت محض خوف کی وجہ سے کرتا ہے وہ حروری (خارجی) ہے اور جو امید کے ساتھ عبادت کرتا ہے وہ مرجی ہے ( یہ وہ فرقہ ہے جن کے خیال میں مومن جہنم میں نہیں جائے گا چاہے وہ برے اعمال کرے) اور جو محض محبت کی وجہ سے عبادت کرتا ہے وہ زندیق (بے دین) ہے اور جو شخص خوف ' امید اور محبت (تینوں باتوں) کے پیش نظر عبادت کرتا ہے وہ مُوَحِّد( یعنی اﷲ عزّوجل کو ایک ماننے والا)ہے۔
تو ان تینوں امور کو کا جمع ہونا ضروری ہے اور غلبہئ خوف زیادہ بہتر ہے لیکن موت سے پہلے پہلے جبکہ موت کے وقت زیادہ بہتر امید اور حُسِن ظن کا غلبہ ہے کیونکہ خوف اس کوڑے (ڈنڈے) کے قائم مقام ہے جو عمل پر ابھارتا ہے اوراب عمل کا وقت ختم ہوگیاکیونکہ موت کا سامنا کرنے والا عمل پر قادر نہیں ہوتا چنانچہ وہ خوف کے اسباب کی طاقت بھی نہیں رکھتا کیونکہ اس وقت اس کی زیادہ دل شکنی ہونے کا امکان ہوتا ہے لیکن امید دل کو مضبوط کرتی ہے اور اسے اس رب سے محبت دلاتی ہے جس سے امید باندھی ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! کسی آدمی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ دنیا سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے بغیر جائے بلکہ ضروری ہے کہ اسے اﷲ تعالیٰ کی ملاقات محبوب ہو کیونکہ جو شخص اﷲ تعالیٰ سے ملاقات چاہتا ہے اﷲ تعالیٰ اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے اور امید کے ساتھ محبت ملی ہوئی ہوتی ہے اور جس کے کرم کی امید ہو وہ محبوب ہوتا ہے اور تمام علوم واعمال کا مقصد اﷲ تعالیٰ کی معرفت ہے اور معرفت سے محبت پیدا ہوتی ہے کیونکہ اسی کی طرف جانا ہے اور موت کے ذریعے اسی کی طرف بڑھنا ہے اور جو آدمی اپنے محبوب کی طرف جاتا ہے اس کا سرور بقدر محبت بڑھتا ہے اور جو شخص اپنے محبوب سے جدا ہوجائے اس کی تکلیف اور سختی بہت زیادہ ہوتی ہے۔