ایک ہیجڑے کی مغفِرت کی حکایت
جو لوگ ہیجڑے (مُخَنَّث۔زَنخے۔خُنثیٰ)سے نفرت کرتے اور اسے حِقارت سے دیکھتے ہیں ،ان کوایسا نہیں کرنا چاہے کہ یہ بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کابندہ ہے اور اُسی عَزَّوَجَلَّ نے اِسے پیدا فرمایا ہے اورہیجڑے کوبھی چاہے کہ گناہوں اور ناچ گانوں جیسے حرام اور جہنَّم میں لے جانے والے کام سے پرہیز کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے سنّتوں بھری زندگی گزارے۔جو فطرۃًمُخَنَّث یعنی ہجڑا ہو اُسے خود کو ستائے جانے کے سبب دل تھوڑا کرنے کے بجائے اللہ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت پر نظر رکھنی چاہے۔آیئے! ایک خوش نصیب ہیجڑے کی حکایت ملاحَظہ فرمایئے ، شاید ہرہیجڑے کو اس پر رشک آئے کہ کاش!میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناشیخ عبدُالوہّاب بن عبد المجید ثَقفی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: میں نے ایک جنازہدیکھا جسے تین مرد اور ایک خاتون نے اُٹھا رکھا تھا،
خاتون کی جگہ میں نے اُٹھا لیا، نَمازِ جنازہ کی ادائیگی اور تدفین کے بعد میں نے اُس خاتون سے معلوم کیا : مرحوم سے آپ کا کیا رشتہ تھا؟بولی: میرا بیٹا تھا۔ پوچھا: پڑوسی وغیرہ جنازے میں کیوں نہیں آئے؟ کہا:دراصل میرا فرزند مُخَنَّث (یعنی خُنثیٰ۔ ہیجڑا)تھا ۔اِس لئے لوگوں نے اِس کے جنازے میں شرکت کو اَھَمِّیَّت نہیں دی۔ سیِّدُنا شیخ عبدالوہّاب بن عبد المجید علیہ رحمۃ الحمید فرماتے ہیں: مجھے اس غمزدہ ماں پر بڑا رَحم آیا، میں نے اُسے کچھ رقم اور غلّہ وغیرہ پیش کیا۔اُسی رات سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی چودھویں کے چاند کی طرح چہرہ چمکاتا ہوا میرے خواب میں آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا ، میں نے پوچھا : مَن اَنْتَ ؟ یعنی آپ کون ہیں؟ بولا: میں وُہی مُخَنّث ہوں جِسے آج آپ نے دَفن کیا ہے، لوگوں کے مجھے حقیر سمجھنے کی وجہ سے اللہُ قدیرعَزَّوَجَلَّ نے مجھ پر رَحم فرمایا۔ (رِسالہ قُشیریہ ص۱۷۳ مُلَخَّصاً ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمِین بِجَاہِ النَّبِیِّ الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تمہیں معلوم کیا بھائی! خدا کا کون ہے مقبول
کسی مومن کو مت دیکھو کبھی بھی تم حَقارت سے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد